languageIcon
بحث
بحث
دن ، رات کے اذکار دن ، رات کے اذکار ( اور اس کی تعداد 4 ابواب )

1 کئی بار

brightness_1 ’اَللّٰھُمَّ! رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ، رَبَّنَا وَربَّ کُلِّ شَيْئٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی، وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالإِْنْجِیلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُبِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَيْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ، اَللّٰھُمَّ! أَنْتَ الْأَوَّلُ، فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَيْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَيْئٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ‘ ’’اے اللہ! آسمانوں کے رب، زمین کے رب اور عرشِ عظیم کے رب، ہمارے رب اور ہر شے کے رب، دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے، تورات، انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے، میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اُس شے کے شر سے جس کی پیشانی تیری پکڑمیں ہے ۔ اے اللہ! تو ہی اول ہے جس سے پہلے کوئی شے نہیں۔ تو ہی آخر ہے جس کے بعد کوئی شے نہیں۔ تو ہی ظاہر ہے جس کے اوپر کوئی شے نہیں۔ تو ہی باطن ہے جس کے آگے کوئی شے نہیں۔ ہمارا قرض اتار دے اور ہمیں فقر سے مستغنی کردے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2713۔) .......

100 کئی بار

brightness_1 ’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘ 33 مرتبہ۔ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ 33 مرتبہ۔ ’اَللّٰہُ أَکْبَر‘ 34 مرتبہ۔ یہ ذکر نہایت مؤثر ہے۔ اس سے تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور اگلے دن کے لیے قوت میسر آتی ہے۔ اس كي دليل: حضرت علی رضی الله عنه سے روایت ہے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اس کا تذکرہ کیا۔ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا مقصد بتایا۔ اس کے بعد نبی ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے۔ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم اٹھنے لگے تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ پر رہو۔‘‘ آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ میں نے سینے پر آپ کے قدم کی ٹھنڈک محسوس کی۔ فرمایا: ’’میں تم دونوں کو وہ بات نہ سکھاؤں جو اس سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیاہے؟! جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو 34 مرتبہ تکبیر ’اللّٰہ أکبر‘ کہو، 33 مرتبہ تسبیح ’سبحان اللّٰہ‘ کہو اور 33 مرتبہ تحمید ’الحمد للّٰہ‘ کہو۔ یہ تمھارے لیے خادم سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 3705، وصحیح مسلم، حدیث: 2727۔) ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی الله عنه نے کہا: جب سے میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے، میں نے یہ اذکار ترک نہیں کیے۔ کسی نے پوچھا: کیا صفین کی رات بھی نہیں؟ کہا: ہاں! صفین کی رات بھی نہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 5362، وصحیح مسلم، حدیث: 2727۔) .......

1 کئی بار

brightness_1 ’اَللّٰھُمَّ! إِنِّي أَسْلَمْتُ وَجْھِي إِلَیْکَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَیْکَ، وَأَلْجَأْتُ ظَھْرِي إِلَیْکَ، رَغْبَۃً وَرَھْبَۃً إِلَیْکَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ، آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِي أَرْسَلْتَ‘ ’’اے اللہ! بلاشبہ میں نے اپنے چہرے کو تیرا مطیع کیا۔ اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا۔ اپنی پیٹھ لگائی تجھ سے۔ تیری طرف رغبت کرنے اور تجھ سے ڈرنے کی وجہ سے۔ نہیں ہے کوئی جائے پناہ اور نہ کوئی جائے نجات مگر تیرے پاس۔ میں ایمان لایا تیری کتاب پر جسے تو نے نازل کیا اور تیرے نبی پر جسے تو نے مبعوث فرمایا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 247، وصحیح مسلم، حدیث: 2710۔) حدیث کے آخر میں آپ نے فرمایا: ’’یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر (عین سوتے وقت) پڑھو۔ اگر تم اُسی رات وفات پاگئے تو تم فطرت پر وفات پاؤ گے۔‘‘ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’اور اگر صبح ہو گئی تو تمھاری صبح خیر و بھلائی پر ہوگی۔‘‘ اس حدیث میں ایک اور سنت بھی بیان ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ سونے سے پہلے یہ ذکر آدمی کا آخری کلام ہونا چاہیے۔ یہ اِس لحاظ سے بہت بڑا انعام ہے کہ اُس رات آدمی کی وفات سنت پر اور ملت ابراہیمی پر ہوگئی۔ جو شخص یہ ذکر کرکے سوئے گا اُس کی صبح بابرکت ہوگی۔ اُس کے رزق میں بھی برکت ہوگی اور دن بھر کے دیگر کاموں میں بھی۔ یہ ایک جامع دعا ہے جس کے نتیجے میں یہ تمام انعامات آدمی کو حاصل ہوتے ہیں۔ .......

1 کئی بار

brightness_1 ایک اور اہم ذکر اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے۔ یہ ذکر بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ حضرت شداد بن اوس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: سیدالاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: ’اَللّٰھُمَّ! أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي، وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ، أَعُوذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِي، إِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ‘ ’’اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ نہیں کوئی معبود مگر تو ہی۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں۔ جہاں تک میری استطاعت میں ہے میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں ۔ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اُس کام کے شر سے جو میں نے کیا۔ میں خود پر تیری نعمت کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں ۔ تو مجھے معاف فرما دے۔ کیونکہ گناہوں کو معاف نہیں کرتا مگر تو ہی۔‘‘ فرمایا: ’’جس شخص نے یقین کے ساتھ دن میں یہ استغفار کیا، پھر وہ اُسی روز شام ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اور جس نے رات میں یقین کے ساتھ یہ استغفار کیا، پھر وہ اسی رات صبح ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو وہ اہل جنت میں سے ہے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث: 6306۔) .......