brightness_1
اسلاف میں سنت پر عمل کرنے کی چند مثالیں
نعمان بن سالم نے عمرو بن اوس سے روایت کیا ، اُن سے عنبسہ بن ابو سفیان نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص ایک دن اوررات میں بارہ رکعت (سنت نماز) ادا کرتا ہے، اس کے لیے اُن کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 1727۔)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان رکعتوں کے بارے میں سنا ہے، میں نے ان رکعتوں کو کبھی ترک نہیں کیا۔
عنبسہ کہتے ہیں: جب سے میں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ان رکعتوں کی روایت سنی ہے میں نے ان رکعتوں کو ترک نہیں کیا۔
عمرو بن اوس نے کہا: جب سے میں نے عنبسہ سے یہ روایت سنی ہے، میں نے ان رکعتوں کو ترک نہیں کیا۔
نعمان بن سالم کہتے ہیں: جب سے میں نے عمرو بن اوس سے یہ روایت سنی ہے، میں نے ان رکعتوں کو ترک نہیں کیا۔،
حضرت علی رضی الله عنه فرماتے ہیں: چکی پر آٹا پیسنے سے سیدہ فاطمہ(رضی الله عنہا) کے ہاتھ میں چھالے پڑ گئے۔ کچھ قیدی (اسی اثنا میں) نبی ﷺ کے پاس آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا نبیﷺ کے پاس گئیں لیکن آپ نہ ملے۔ وہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے ملیں اور انہیں خبر دی ۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے آپ کو سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کی آمد کے متعلق بتایا ۔ اس پر نبی ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے۔ ہم اپنے بستروں پر آچکے تھے۔ ہم اٹھنے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ پر رہو۔‘‘ آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ میں نے آپ کے قدم کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تم دونوں کو وہ بات نہ بتاؤں جو اُس سے بہتر ہے جس کا تم دونوں نے سوال کیا ہے؟
جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ کہہ لیا کرو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے۔‘‘، (صحیح بخاری، حدیث: 3705، وصحیح مسلم، حدیث: 2727۔)
ایک روایت میں سیدنا على رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے جب سے نبی ﷺ کا یہ فرمان سنا ہے، یہ وظیفہ کبھی ترک نہیں کیا ۔ کسی نے عرض کیا: صفین کی رات بھی نہیں؟
فرمایا: صفین کی رات بھی نہیں۔(صحیح بخاری، حدیث: 5362، وصحیح مسلم، حدیث: 2727۔)
یہ تو معلوم ہی ہے کہ صفین کی رات جنگ ہوئی تھی جس میں ایک فریق کے قائد حضرت علی رضى الله عنہ تھے۔ اس شدت کی رات بھی وہ اس سنت پر عمل کرنے سے غافل نہ ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ میت کی نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجایا کرتے تھے۔ وہ جنازے کے ساتھ قبر تک نہیں جاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہی سنت ہے۔
قبر تک جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت سے وہ نا واقف تھے ۔ لیکن جب انہیں اس مسئلہ کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ کی روایت کا پتہ چلا تو وہ اب تک سنت کے چھوٹتے رہنے کی وجہ سے نادم ہوئے۔
حضرت ابن عمررضى الله عنه نے مٹھی میں پکڑے کنکر زمین پر دے مارے اور فرمایا: ہم نے تو بہت سے قیراط کھو دیے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1324، وصحیح مسلم، حدیث: 945۔)
امام نووی رحمہ الله نے اس روایت کے تحت لکھا ہے:
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کو جب کسی نیکی کا پتہ چلتا تو وہ بڑے شوق سے اُس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور اگر وہ نیکی کرنے سے محروم رہتے تو بڑے افسوس کا اظہار کرتے تھے۔ (ديكهئے المنهاج 7/15)