سوال یہ ہے کہ نمازِ تہجد کا افضل وقت کون سا ہے؟
تو جواب یہ ہو گا کہ نمازِ وتر کے وقت کا آغاز نمازِ عشاء سے ہوتا ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ یوں نمازِ وتر کی ادائیگی نمازِ عشاء اور فجر کے درمیانی وقت میں کی جائے گی۔
اس کی دلیل یہ حدیث ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر تک کے وقت میں گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3420، وصحیح مسلم، حدیث: 1159۔)
جہاں تک نمازِ تہجد کے افضل وقت کا تعلق ہے تو وہ ہے نصف رات کے بعد تہائی رات کا وقت۔
مقصود یہ ہے کہ آدمی رات کے دو حصے کرے۔ دوسرے نصف کے تہائی میں نمازِ تہجد ادا کرے اور رات کے آخر میں آرام کرے، یعنی رات کا وہ حصہ جو کل رات کے اعتبار سے چوتھے اور پانچویں نمبر پر آتا ہے، اس میں نمازِ تہجد پڑھے اور وہ چھٹا حصہ جو (رات کے چھ حصے کرنے سے) چھٹے نمبر پر آتا ہے، اس میں آرام کرے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ نصف رات آرام کرتے تھے، تہائی رات قیام کرتے تھے اور رات کا چھٹا حصہ آرام کرتے تھے۔ اور وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 3420، وصحیح مسلم، حدیث: 1159۔)
سوال یہ ہے کہ آدمی اگر اس سنت پر عمل کرنا چاہے تو وہ رات کی تقسیم کیسے کرے؟
جواب یہ ہے کہ آدمی غروب آفتاب سے طلوع فجر تک کے وقت کا حساب کرے۔ وہ اس تمام وقت کو چھ برابر حصوں میں تقسیم کرے۔ پہلے تین حصے رات کا نصف ہیں۔ اس میں آرام کرے۔ اگلے تین حصوں میں چوتھے اور پانچویں حصے میں قیام کرے۔ یہ رات کا تہائی ہے۔ چھٹے حصے میں پھر آرام کرے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی لیے کہا تھا: میرے یہاں سحر نے نبی ﷺ کو ہمیشہ سوتے پایا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1133، وصحیح مسلم، حدیث: 742۔)
اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے آدمی افضل وقت میں نمازِ تہجد ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی سابقہ روایت میں آیا ہے۔
خلاصہ کلام :
نمازِ تہجد کے وقت کی افضلیت تین مراتب پر منقسم ہے:
پہلا مرتبہ: شب کے نصفِ اول میں آرام کیا جائے۔ شب کا تہائی حصہ قیام میں گزارا جائے۔ رات کے چھٹے حصے میں پھر آرام کیا جائے۔ جیسا کہ ابھی گزرا ہےـ
اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی وہی روایت ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
دوسرا مرتبہ: رات کے آخری تہائی میں قیام کیا جائے۔
اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول کرتا ہے جب رات کا آخری ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے۔ تب وہ فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اُس کی دعا قبول کروں۔ اور کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اُسے عطا کروں۔ اور کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے میں اسے بخش دوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1145، وصحیح مسلم، حدیث: 758۔ )
ایسے ہی جابر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث میں ہےـ تاہم اگر یہ ڈر ہو کہ رات کے آخر میں بیداری نہیں ہوگی تو تیسرے مرتبے کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔
تیسرا مرتبہ: شب کے اول وقت ہی میں نمازِ تہجد پڑھ لی جائے یا رات کے جس حصے میں بھی آسانی ہو پڑھ لی جائے۔
اس کی دلیل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جسے یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخر میں نہیں اٹھ سکے گا، اُسے رات کے اول میں نمازِ وتر پڑھ لینی چاہیے۔ اور جسے یہ طمع ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھے گا اُسے رات کے آخر ہی میں نمازِ وتر پڑھنی چاہیے کیونکہ آخر شب کی نماز میں بلاشبہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اور یہ افضل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 755۔)
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جو وصیت کی تھی اسے بھی اسی پر محمول کیا جائے گا، (السنن الکبریٰ للنسائي، حدیث: 2712، والصحیحۃ للألباني، حدیث: 2166۔) حضرت ابودرداء (مسند أحمد، حدیث: 4496۔)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم، حدیث: 721۔)کو جو وصیت فرمائی تھی وہ بھی اسی حدیث پر محمول کی جائے گی کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے کہا: مجھے میرے دلی دوست نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ جن میں سے ایک وصیت یہ ہے: ’’کہ میں سونے سے پہلے نماز وتر پڑھ لوں۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (، صحیح بخاری، حدیث: 2013، وصحیح مسلم، حدیث: 738۔)
ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تیرہ رکعات پڑھیں۔ یہ بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح مسلم میں مروی ہے۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تہجد کی نماز میں رکعات کی تعداد مختلف ہے ۔ نبی کریم ﷺ عام طورپر گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ کبھی آپ تیرہ رکعات بھی پڑھتے تھے۔ یوں مختلف روایات میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب رات کو قیام کرتے تو نماز کا آغاز یوں کرتے تھے: ’اَللّٰھُمَّ! رَبَّ جِبْرَائِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ، اِھْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ، إِنَّکَ تَھْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ‘ ’’اے اللہ! جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غیب اور حاضر کے جاننے والے! تو ہی فیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے درمیان اُس چیز کا جس کے متعلق وہ اختلاف کرتے ہیں۔ مجھے اپنے اِذن سے اُس حق بات کی ہدایت دے جس کے متعلق اختلاف کیا گیا ہے۔ بلاشبہ تو جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 770۔)
حضرت ابن عباس رضى الله عنه سے روایت ہے، فرماتے ہیں : نبي ﷺ جب رات کو تہجد پڑھتے تو یہ دعا کرتے: ’اَللّٰھُمَّ! لَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَقَوْلُکَ الْحَقُّ، وَلِقَائُك الْحَقُّ، وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ، وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ، اَللّٰھُمَّ! لَکَ أَسْلَمْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ، وَبِکَ خَاصَمْتُ، وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلٰھِي، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ ـ ’’اے اللہ! تیری ہی حمد ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تیری ہی حمد ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا منتظم ہے۔ تیری ہی حمد ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور اُن مخلوقات کا جو ان میں ہیں۔ تو حق ہے۔ تیرا وعدہ حق ہے۔ تیری بات حق ہے۔ تیری ملاقات حق ہے۔ جنت حق ہے۔ جہنم حق ہے۔ نبی حق ہیں۔ (قیامت کی) گھڑی حق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا ہی تابع ہوا اور تجھ ہی پر ایمان لایا اور تجھ ہی پر توکل کیا، اور میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا۔ تیری ہی مدد سے میں نے (دشمنوں کا) مقابلہ کیا۔ اور میں تیری ہی طرف فیصلہ لے کر آیا۔ اس لیے تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ طور پر کیا اور جو کچھ سرعام کیا۔ تو میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 7499، وصحیح مسلم، حدیث: 769۔)
یہ بھی سنت ہے کہ قیام، رکوع اور سجدوں کو لمبا کیا جائے تاکہ نماز کے تمام فعلی ارکان قریباً برابر ہو جائیں
اس کی دلیل:
حضرت حذیفہ رضی الله عنه فرماتے ہیں: میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ شروع کی۔ میں نے سوچا کہ سو آیات پڑھ کر رکوع میں جائیں گے لیکن آپ ﷺ پڑھتے گئے۔ میں نے پھر سوچا کہ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے۔ جب آپ ﷺ نے سورت ختم کر لی تو میں نے سوچا اسی پر رکوع کریں گے لیکن آپ ﷺ نے سورہ نساء شروع کی اور اُسے پڑھا، پھر آلِ عمران شروع کی اور اُسے پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔ جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپ تسبیح کرتے۔ اور جب سوال سے گزرتے تو سوال کرتے۔ اور جب تعوذ سے گزرتے تو تعوذ کرتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور یہ دعا پڑھنے لگے: ’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ‘ ’’پاک ہے میرا ربِ عظیم۔‘‘ آپ کا رکوع بھی قیام کی طرح (لمبا) تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ ’’سن لیا اللہ نے اُسے جس نے اس کی حمد کی۔‘‘ پھر آپ نے طویل قیام کیا، قریباً اتنا ہی (طویل قیام) جتنا طویل رکوع کیا تھا۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور یہ دعا کی: ’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی‘ ’’پاک ہے میرا رب سب سے بلند۔‘‘ آپ کا سجدہ بھی تقریباً اتنا ہی (طویل) تھا جتنا آپ کا قیام۔ (صحیح مسلم، حدیث: 772۔)
نیز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : اُن سے رسول اللہﷺ کی قراء ت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ قراءت میں ہر آیت پر وقف کرتے تھے…۔ :{بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ O الحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ O الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ O مَالِكِ يَوْمِ الدِّيِنِ } (مسند أحمد: 302/6۔) اور دارقطنی نے (118)کہا ہے کہ اس کی أسناد صحیح اور راوی ثقات ہیں، اور نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔(المجموع 3/333)
قراء ت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہیے۔ تیزی سے یا چبا چبا کر نہیں پڑھنا چاہیے۔ ہر آیت الگ پڑھنی چاہیے۔ مطلب یہ کہ دو یا تین آیتوں کو وقف کیے بغیر ملا کر نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ ہر آیت پر وقف کرنا چاہیے۔
آیت تسبیح سے گزر ہو تو تسبیح کہنی چاہیے۔ آیت سوال سے گزر ہو تو سوال کرنا چاہیے۔ آیت تعوذ سے گزر ہو تو تعوذ کرنا چاہیے۔
اس کی دلیل:
حضرت حذیفہ رضی الله عنه فرماتے ہیں: میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ شروع کی۔ میں نے سوچا کہ سو آیات پڑھ کر رکوع میں جائیں گے لیکن آپ ﷺ پڑھتے گئے۔ میں نے پھر سوچا کہ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے۔ جب آپ ﷺ نے سورت ختم کر لی تو میں نے سوچا اسی پر رکوع کریں گے لیکن آپ ﷺ نے سورہ نساء شروع کی اور اُسے پڑھا، پھر آلِ عمران شروع کی اور اُسے پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔ جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپ تسبیح کرتے۔ اور جب سوال سے گزرتے تو سوال کرتے۔ اور جب تعوذ سے گزرتے تو تعوذ کرتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور یہ دعا پڑھنے لگے: ’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ‘ ’’پاک ہے میرا ربِ عظیم۔‘‘ آپ کا رکوع بھی قیام کی طرح (لمبا) تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ ’’سن لیا اللہ نے اُسے جس نے اس کی حمد کی۔‘‘ پھر آپ نے طویل قیام کیا، قریباً اتنا ہی (طویل قیام) جتنا طویل رکوع کیا تھا۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور یہ دعا کی: ’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی‘ ’’پاک ہے میرا رب سب سے بلند۔‘‘ آپ کا سجدہ بھی تقریباً اتنا ہی (طویل) تھا جتنا آپ کا قیام۔ (صحیح مسلم، حدیث: 772۔)
نیز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : اُن سے رسول اللہﷺ کی قراء ت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ قراءت میں ہر آیت پر وقف کرتے تھے…۔ :{بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ O الحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ O الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ O مَالِكِ يَوْمِ الدِّيِنِ } (مسند أحمد: 302/6۔) اور دارقطنی نے (118)کہا ہے کہ اس کی أسناد صحیح اور راوی ثقات ہیں، اور نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔(المجموع 3/333)
اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرماتے ہیں : ایک آدمی نے اٹھ کر سوال کیا: اللہ کے رسول! صلاۃ اللیل (نماز تہجد) کس طرح پڑھی جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ اللیل دو دو رکعت ہے۔ اور جب تمھیں صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 990، وصحیح مسلم، حدیث: 749)
’’دو دو رکعت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ دو دو رکعت کر کے نمازِ تہجد پڑھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے۔ اکٹھی چار رکعت نہ پڑھے۔
پہلی رکعت میں سورہ اعلیٰ، دوسری میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنی چاہیے۔
اس کی دلیل: حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ}، {قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ} اور {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَد} کے ساتھ وتر پڑھا کرتے تھے۔ (سنن أبی داود، حدیث: 1423، وسنن النسائی، حدیث: 1733۔)
یہاں اس سے مراد دعا کرنا ہے اور یہ دعا تیسری رکعت میں کی جاتی ہے جس میں سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے۔ وتر میں بعض دفعہ دعائے قتوت کرنا اور بعض دفعہ نہ کرنا سنت ہے۔ یہ امر بعض صحابہ سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اکثر دعا نہ کی جائے۔
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ
بے شک وہ اپنا ہاتھ اٹھاتے تھے، اور یہی جمہور رحمہم اللہ کا قول ہے، جیسا کہ اس کا ثبوت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ہے ، جیسا کہ یہ بیہقی کے نزدیک ہے ۔
اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ متعدد صحابہ اکرام قنوت کے وقت کے اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔ دیکھئے السنن الکبری (2/211)
قنوت وتر کے آغاز کا طریقہ:
راجح بات یہ ہے کہ قنوت وتر کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے کیا جائے اور پھر نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھا جائے اور اس کے بعد دعا کی جائے کیونکہ ایسا کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔
اس کی دلیل:
حضرت فضالہ بن عبید رضی الله عنه سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو دعا کرتے سنا جو نماز میں دعا کر رہا تھا اور اس نے رسول اکرم ﷺ پر درود نہیں پڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔‘‘ پھر آپ نے اسے بلایا اور اسے اور دیگر لوگوں سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے کرے، پھر نبی ﷺ پر درود پڑھے اور اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث: 3477۔)
امام ابن قیم نے لکھا: دعا کے حوالے سے مستحب یہ ہے کہ دعا کا آغاز حمد وثنا سے کیا جائے، پھر اپنی ضرورت کا سوال کیا جائے، جیسا کہ سیدنا فضالہ بن عبید کی روایت میں ہے۔ (الوابل الصیب، ص: 110)
کیا دعاء قنوت کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر پھیرنے چاہئیں؟
قنوت وتر کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں صحیح امر یہی ہے کہ دعا پوری ہونے پر ہاتھ چہرے پر پھیرنا سنت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
امام مالک ؒسےاُس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے۔اُنھوں نے اِسے عجیب جانا اور فرمایا: ’’مجھے نہیں پتہ ۔ ‘‘ (کتاب الوتر للمروزی، ص: 236)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں ایک دو احادیث وارد ہیں لیکن وہ بھی قابل حجت نہیں ہیں۔
آخر شب کی ایک سنت مؤکدہ دعا ہے۔ اگر آدمی آخر شب نماز میں قنوت کر لے تو کافی ہے، تاہم اگر اس نے قنوت نہیں کیا تو سنت یہ ہے کہ وہ اس وقت دعا کرے کیونکہ اس وقت دعا کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
آخر شب آسمانِ دنیا پر اللہ تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ اُس کی شان اور اُس کے جاہ و جلال کے لائق ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب، وہ بہت بابرکت اور بہت بلند ہے، ہر رات جبکہ رات کا آخری تہائی باقی رہ جاتا ہے، آسمانِ دنیا پر نزول کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے: کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اُس کی دعا قبول کروں۔ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے عطا کروں۔ کون مجھ سے معافی چاہتا ہے کہ میں اُسے بخش دوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1145، وصحیح مسلم، حدیث: 758۔)
اس کی دلیل: حضرت ابی بن کعب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز وتر میں سورہ اعلیٰ، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے تھے۔ جب آپ سلام پھیرتے تو تین مرتبہ کہتے: ’سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ‘ ’’پاک ہے بادشاہ، نہایت مقدس۔‘‘ (سنن نسائی، حدیث: 1702۔)
امام نووی اور امام البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی الله عنه کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ تیسری مرتبہ ’سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ‘ کہتے ہوئے آواز بلند کرتے تھے۔‘‘ (سنن نسائی، حدیث: 1734۔)
امام البانی نے اس کو صحیح کہاہے۔ (تحقیق مشکاۃ المصابیح: 1/398)۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ نمازِ تہجد کے لیے اہل خانہ کو بھی بیدار کرے۔ اسی طرح خاتونِ خانہ اگر نمازِ تہجد کے لیے جاگے تو شوہر کو بھی جگائے۔ یہ سنت ہے اور یہ نیکی کے معاملے میں تعاون ہے۔
اس کی دلیل: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ رات کو نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی رہتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے جگادیتے۔ اور میں وتر پڑھتی تھی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 512، وصحیح مسلم، حدیث: 512۔)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبیﷺ (ایک مرتبہ) رات کو بیدار ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! کیسے خزانے اتارے گئے ہیں اور کیسے فتنے اتارے گئے ہیں! کمروں میں رہنے والیوں کو کون بیدار کرے گا؟ (آپ کی مراد اپنی ازواج مطہرات سے تھی) تاکہ وہ نماز پڑھیں۔ دنیا میں لباس پہنے کتنی ہی عورتیں قیامت کے دن ننگی ہوں گی۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6218۔ )
تہجد کی نماز پڑھنے والے پر جب تھکاوٹ طاری ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔ حضرت انس رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (ایک دفعہ) مسجد میں داخل ہوئے۔ دو ستونوں کے درمیان رسی بندھی ہوئی تھی۔ پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: یہ زینب رضی اللہ عنہا کے لیے ہے۔ وہ نماز پڑھتی ہیں۔ جب وہ سست پڑجاتی یا تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے کھول دو۔ تم میں سے کوئی اس وقت نماز پڑھے جب تک چستی باقی ہو۔ لیکن جب وہ سست پڑ جائے یا تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1150، وصحیح مسلم، حدیث: 784۔)
اور جب اُسے اونگھ آئے تو وہ سو جائے تاکہ وہ تروتازہ ہو کر اٹھے اور پھر نماز پڑھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آئے تو وہ سو جائے تاکہ نیند اُس سے دور ہو جائے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ مغفرت کی دعا کرتے کرتے خود کو گالیاں دینے لگے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 212، وصحیح مسلم، حدیث: 786۔)
اسی طرح اگر کوئی شخص رات کو قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہو اور اُسے نیند آنے لگے تو اُسے چاہیے کہ وہ سو جائے تاکہ اسے کچھ قوت ملے۔ یہ سنت ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جب رات کو قیام کرے اور قرآن اُس کی زبان پر غیر واضح ہونے لگے اور اُسے پتہ نہ چلے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اُسے چاہیے کہ سو جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 787۔)
مثال کے طور پر کسی کا معمول رات کو تین وتر پڑھنا تھا لیکن وہ سو گیا یا بیمار پڑ گیا اور وتر رہ گئے تو وہ دن میں چار رکعتیں پڑھے گا۔ اگر معمول پانچ وتر پڑھنا تھا تو دن میں وہ چھ رکعتیں پڑھے گا۔ نبی کریمﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ آپ کا معمولِ مبارک یہ تھا کہ آپ رات کو گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
أم المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپﷺ پر نیند یا کوئی تکلیف غالب آجاتی اور آپ قیام اللیل نہ کر پاتے تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 746۔)