brightness_1
افضل وقت میں نمازِ تہجد پڑھنا سنت ہے
سوال یہ ہے کہ نمازِ تہجد کا افضل وقت کون سا ہے؟
تو جواب یہ ہو گا کہ نمازِ وتر کے وقت کا آغاز نمازِ عشاء سے ہوتا ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ یوں نمازِ وتر کی ادائیگی نمازِ عشاء اور فجر کے درمیانی وقت میں کی جائے گی۔
اس کی دلیل یہ حدیث ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر تک کے وقت میں گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3420، وصحیح مسلم، حدیث: 1159۔)
جہاں تک نمازِ تہجد کے افضل وقت کا تعلق ہے تو وہ ہے نصف رات کے بعد تہائی رات کا وقت۔
مقصود یہ ہے کہ آدمی رات کے دو حصے کرے۔ دوسرے نصف کے تہائی میں نمازِ تہجد ادا کرے اور رات کے آخر میں آرام کرے، یعنی رات کا وہ حصہ جو کل رات کے اعتبار سے چوتھے اور پانچویں نمبر پر آتا ہے، اس میں نمازِ تہجد پڑھے اور وہ چھٹا حصہ جو (رات کے چھ حصے کرنے سے) چھٹے نمبر پر آتا ہے، اس میں آرام کرے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ نصف رات آرام کرتے تھے، تہائی رات قیام کرتے تھے اور رات کا چھٹا حصہ آرام کرتے تھے۔ اور وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 3420، وصحیح مسلم، حدیث: 1159۔)
سوال یہ ہے کہ آدمی اگر اس سنت پر عمل کرنا چاہے تو وہ رات کی تقسیم کیسے کرے؟
جواب یہ ہے کہ آدمی غروب آفتاب سے طلوع فجر تک کے وقت کا حساب کرے۔ وہ اس تمام وقت کو چھ برابر حصوں میں تقسیم کرے۔ پہلے تین حصے رات کا نصف ہیں۔ اس میں آرام کرے۔ اگلے تین حصوں میں چوتھے اور پانچویں حصے میں قیام کرے۔ یہ رات کا تہائی ہے۔ چھٹے حصے میں پھر آرام کرے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی لیے کہا تھا: میرے یہاں سحر نے نبی ﷺ کو ہمیشہ سوتے پایا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1133، وصحیح مسلم، حدیث: 742۔)
اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے آدمی افضل وقت میں نمازِ تہجد ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی سابقہ روایت میں آیا ہے۔
خلاصہ کلام :
نمازِ تہجد کے وقت کی افضلیت تین مراتب پر منقسم ہے:
پہلا مرتبہ: شب کے نصفِ اول میں آرام کیا جائے۔ شب کا تہائی حصہ قیام میں گزارا جائے۔ رات کے چھٹے حصے میں پھر آرام کیا جائے۔ جیسا کہ ابھی گزرا ہےـ
اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی وہی روایت ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
دوسرا مرتبہ: رات کے آخری تہائی میں قیام کیا جائے۔
اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول کرتا ہے جب رات کا آخری ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے۔ تب وہ فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اُس کی دعا قبول کروں۔ اور کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اُسے عطا کروں۔ اور کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے میں اسے بخش دوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1145، وصحیح مسلم، حدیث: 758۔ )
ایسے ہی جابر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث میں ہےـ تاہم اگر یہ ڈر ہو کہ رات کے آخر میں بیداری نہیں ہوگی تو تیسرے مرتبے کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔
تیسرا مرتبہ: شب کے اول وقت ہی میں نمازِ تہجد پڑھ لی جائے یا رات کے جس حصے میں بھی آسانی ہو پڑھ لی جائے۔
اس کی دلیل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جسے یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخر میں نہیں اٹھ سکے گا، اُسے رات کے اول میں نمازِ وتر پڑھ لینی چاہیے۔ اور جسے یہ طمع ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھے گا اُسے رات کے آخر ہی میں نمازِ وتر پڑھنی چاہیے کیونکہ آخر شب کی نماز میں بلاشبہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اور یہ افضل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 755۔)
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جو وصیت کی تھی اسے بھی اسی پر محمول کیا جائے گا، (السنن الکبریٰ للنسائي، حدیث: 2712، والصحیحۃ للألباني، حدیث: 2166۔) حضرت ابودرداء (مسند أحمد، حدیث: 4496۔)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم، حدیث: 721۔)کو جو وصیت فرمائی تھی وہ بھی اسی حدیث پر محمول کی جائے گی کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے کہا: مجھے میرے دلی دوست نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ جن میں سے ایک وصیت یہ ہے: ’’کہ میں سونے سے پہلے نماز وتر پڑھ لوں۔‘‘