محترم بهائی : إتباع سنت كے بہت سے ثمرات ہيں.
1/ محبت کے درجے پر پہنچنا۔
بندہ نوافل (سنت نماز) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کر لیتا ہے۔ یوں وہ حب الٰہی کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔
امام ابن قیم نےلکھا ہے: اللہ تعالیٰ تم سے تبھی محبت کرے گا جب تم ظاہر و باطن سے اُس کے حبیب کی اتباع کروگے، اُسے سچا جانو گے ، اُس کے احکامات کی تعمیل کروگے ، اُس کی دعوت قبول کرو گے، دل سے اُسے دوسروں پر ترجیح دو گے ، دوسرے کا فیصلہ چھوڑ کر اُس کے فیصلے پر آؤ گے، تمام لوگوں کی محبت سے کنارہ کش ہو کر اُس کی محبت اپناؤ گے اور دوسرے کی اطاعت سے پاؤں کھینچ کر اُس کی اطاعت کا دم بھروگے۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو مشکل میں مت پڑو اور جہاں سے آئے ہو لوٹ جاؤ۔ نور تلاش کرو کیونکہ تم کسی شے پر نہیں ہو۔ (مدارج السالکین: 3/37)
2/ اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہونا:
جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھلائی کی توفیق دیتا ہے ۔ تب بندہ وہی کام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اس لیے کہ جب وہ درجہ محبت پر پہنچ جاتا ہے تو اُسے معیت الٰہی بھی نصیب ہو جاتی ہے۔
3/ مستجاب الدعوات بن جانا:
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہونے سے آدمی کو یہ فضیلت بھی ملتی ہے کہ اُس کی دعائیں شرفِ قبولیت پاتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو آدمی نوافل کے ساتھ تقربِ الٰہی حاصل کرتا ہے وہ محبت الٰہی پالیتا ہے۔ اور جب وہ محبت الٰہی پالیتا ہے تو اُسے یہ درجہ بھی مِل جاتا ہے کہ اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ مستجاب الدعوات بن جاتا ہے۔
اتباعِ سنت کےان تینوں ثمرات کے دلائل :
ابوہریرہ رضى الله عنہ سے حدیث قدسی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
جس نے میرے کسی دوست سے عداوت کی اُس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ جس شے سے میرا قرب پاتا ہے اس میں مجھے سب سے زیادہ وہ بات پسند ہے جو میں نے اُس پر فرض قرار دی ہے۔ اور میرا بندہ نوافل سے میرے قریب آتا رہتا ہے یہانتک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ مجھ سے (کچھ) مانگے تو میں اُسے ضرور عطا کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں ۔ اور میں کسی بات کو انجام دینے کے لیے اتنا تردد نہیں کرتا جتنا تردد میں مومن کی جان کے متعلق کرتا ہوں کہ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے ۔ اور میں اسے تکلیف دینا ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6502۔)
4/ فرائض کے نقصان کا تدارک:
فرائض میں جو کوتاہی سرزد ہوتی ہے. نوافل (سنت نماز) سے اُس کے نقصان کا تدارک ہوجاتا ہے ۔
اس پردليل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه بيان كرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’روزِ قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ۔ نماز ٹھیک رہی تو وہ فلاح پاگیا اور کامیاب ہوا ۔ نماز خراب ہوئی تو وہ خائب و خاسر ہوا ۔ فرائض میں اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی تو رب تعالیٰ فرمائے گا: دیکھو، میرے بندے کا کوئی نفل بھی ہے ۔ یوں فرائض کی کمی کوتاہی نفل سے پوری کر دی جائے گی، پھر بقیہ تمام اعمال کا حساب بھی اسی اصول پر ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد: 290/2، وسنن أبی داود، حدیث: 864، وجامع ترمذی، حدیث: 413۔)