حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مرد کی جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز اس کے گھر یا بازار میں پڑھی ہوئی نماز سے بیس سے زیادہ درجے افضل ہے۔ اور یہ اس طرح کہ جب کوئی اچھی طرح وضو کرتا اور مسجد میں آتا ہے، اُسے نماز ہی اٹھائے اور وہ نماز ہی کا ارادہ کرے تو وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اُس کے بدلے اُس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور اُس کی ایک خطا مٹا دی جاتی ہے۔ یہانتک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو جب تک نماز اسے ٹھہرائے رکھتی ہے وہ نماز میں ہی ہوتا ہے۔ فرشتے اس شخص کے لیے دعاء رحمت کرتے ہیں جب تک وہ اُسی جگہ پر رہے جہاں اُس نے نماز پڑھی۔ وہ دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ اے اللہ! اسے بخش دے۔ اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔ جب تک وہ ایذا نہ دے یا بے وضو نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 649۔)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جب اقامت سنو تو نماز کی طرف آؤ۔ اطمینان اور وقار کو اختیار کرو اور تیزی نہ کرو۔ جو نماز ملے پڑھ لو اور جو رہ جائے، پوری کر لو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 636، وصحیح مسلم، حدیث: 602۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حرکات کے ٹھہراؤ اور بے مقصد حرکات سے اجتناب کا نام سکینت ہے۔ اور وقار آدمی کی ہیئت میں ہوتاہے جیسے نگاہیں نیچی رکھنا، آواز پست رکھنا اور بے وجہ مڑمڑ کر نہ دیکھنا۔‘‘ (شرح مسلم للنووی، حدیث: 602)
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب تم مسجد میں جاؤ تو دایاں پاؤں پہلے اندر رکھو اور مسجد سے باہر آؤ تو بایاں پاؤں پہلے باہر رکھو۔ (المستدرک للحاکم: 338/1۔)
امام حاکم نے اس کو امام مسلم کے شرط پر صحیح کہاہے۔
اس سلسلے میں حضرت ابو حمید یا حضرت ابو اُسید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ کہے: اللّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اور جب وہ مسجد سے نکلے تو یہ کہے: اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ‘ ’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 713۔)
اگر کوئی نماز کے لیے جلدی آجائے تو اُس کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے۔ اس کے متعلق حضرت ابوقتادہ رضی الله عنہ کی روایت ہے۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1163، وصحیح مسلم، حدیث: 714۔)
تاہم نماز سے پہلے اگر کوئی سنت مؤکدہ ہے تو اُس کا ادا کر لینا کافی ہے۔ اس صورت میں الگ سے تحیۃ المسجد پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی چاشت کے وقت مسجد میں آیا ہے یا اداءِ فرض کے لیے یا وتر پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا ہے، تب بھی اسی نماز کا پڑھ لینا کافی ہے۔ الگ سے تحیۃ المسجد پڑھنے کی ضرورت نہیں ـ
کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصد نماز کے ذریعے سے مساجد کو آباد رکھنا ہے تاکہ لوگ بغیر نماز کے مسجدوں میں نہ آنے لگیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’مردوں کی بہترین صف پہلی اور کم ترین آخری ہے جبکہ عورتوں کی بہترین صف آخری اور کم ترین پہلی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 440۔)
’’بہترین‘‘ سے مراد ہے ثواب اور فضیلت کے لحاظ سے بڑھی ہوئی۔ ’’کم ترین‘‘ سے مراد ہے ثواب اور فضیلت کے لحاظ سے کم۔
اس حدیث کا اطلاق اُس وقت ہے جب مرد اور عورتیں باجماعت نماز پڑھیں اور اُن کے درمیان دیوار وغیرہ کا پردہ نہ ہو۔ تب عورتوں کے لیے اُن کی آخری صف بہتر ہوگی
کیونکہ وہ اُن کے لیے زیادہ پردے کا باعث ہے۔ لیکن اگر مردوں اور عورتوں کے درمیان دیوار وغیرہ کا پردہ ہو یا عورتوں کے لیے نماز کی الگ جگہ مختص ہو جیسا کہ آج کل ہماری اکثر مسجدوں میں ہوتی ہے تو اُس صورت میں عورتوں کے لیے بھی اُن کی پہلی صف ہی افضل ہوگی۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ اور الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے یہی بات اختیار کی ہے کیونکہ پچھلی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ ختم ہوگئی تو افضلیت اپنی اصلی صورت کی طرف لوٹ آئی اور وہ ہے پہلی صف کی فضیلت۔
جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگ جان لیں کہ اذان اور صف اول میں کیا (اجر و ثواب) ہے، پھر ان کے پاس یہی طریقہ ہو کہ وہ اس پر قرعہ اندازی کریں تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں گے۔ اور اگر وہ جان لیں کہ نماز کے لیے جلدی جانے میں کیا (اجروثواب) ہے تو وہ اس پر ایک دوسرے سے سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا (اجر و ثواب) ہے تو وہ اِن دونوں نمازوں کے لیے ضرور آئیں، چاہے اُنہیں سرین کے بل سرکتے ہوئے آنا پڑے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 615، وصحیح مسلم، حدیث: 437۔)
مقتدی کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ پہلی صف میں کھڑا ہو، دوسرا اُسے امام کے قریب کھڑے ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یوں دائیں بائیں دونوں طرف سے جو مقتدی امام کے زیادہ قریب ہوں گے وہ فضیلت میں دیگر مقتدیوں سے بڑھے ہوئے ہوں گے۔
اس کی دلیل:
حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے صاحبانِ عقل و شعور میرے قریب (کھڑے) ہوں۔‘‘ (ابو داود: 674، جامع ترمذی: 228)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امام کے قریب کھڑے ہونا مطلوب ہے، چاہے دائیں طرف کھڑے ہوں یا بائیں طرف۔