فرائض ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعات پڑھنا سنت ہے۔ اس کے دلائل میں سیدہ عائشہ ، حضرت ام حبیبہ اور حضرت ابن عمررضی اللہ عنہم اجمعین کی روایت کردہ احادیث شامل ہیں۔
أُمَّ حَبِيبَةَ - رضي الله عنها - فرماتی ہیں : میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: " جس نے دن اور رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جائے گا " صحیح مسلم حدیث (728),
جامع ترمذی میں یہ اضافہ ہے " چار ظہر سے پہلے , دو ظہر کے بعد ,دو مغرب کے بعد , دو عشاء کے بعد , دو فجر سے پہلے " جامع ترمذی حدیث (415) . امام ترمذی نے اس حدیث کو "حسن صحيح " کہا ہے.
نمازِ ظہر کی پہلی رکعت کا طویل کرنا سنت ہے
حضرت ابوسعید خدری رضی الله عنه سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ظہر کی نماز کھڑی کر دی جاتی تھی اور جانے والا بقیع کی طرف جاتا۔ وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر وضو کرتا، پھر (مسجد میں) آتا اور رسول اللہﷺ اسے لمبا کرنے کی وجہ سے ابھی پہلی رکعت ہی میں ہوتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 454۔)
امام کے لیے سنت ہے کہ وہ نماز ظہر کی پہلی رکعت کو طویل کرے۔ اسی طرح جو شخص اکیلا نماز پڑھتا ہے یا عورت گھر میں نماز پڑھتی ہے، انھیں بھی چاہیے کہ نمازِ ظہر کی پہلی رکعت کو طویل کریں۔
یہ سنت ترک ہو چکی ہے، اس لیے اسے زندہ کرنا ضروری ہے۔
سخت گرمی میں ظہر کی نماز گرمی کا زور ٹوٹ جانے تک مؤخر کرنا سنت ہےـ
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 534,533۔)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ’’مثال کے طورپر گرمیوں میں اگر زوال کا وقت بارہ بجے ہو اور عصر تقریبًا ساڑھے چار بجے ہو تو ابراد تقریبًا چار بجے تک ہوگا۔‘‘ (الممتع: 2/104۔)
صحیح یہ ہے کہ ابراد سب کے لیے ہے، چاہے کوئی جماعت سے نماز پڑھے چاہے اکیلا۔ ہمارے استاذ ابن عثیمین نے اسی کو اختیار کیا۔ خواتین کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اُن کے لیے بھی سخت گرمی میں ابراد سنت ہے کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ ﷺ کی روایت عمومی مفہوم کی حامل ہے۔
ملائیں
ہم
کسی بھی وقت آپ کے کال اورانکوائری کرنے پر ہمیں خوشی ہو گی۔