وضو شروع کرنے سے پہلے یا کلی کرنے سے پہلے مسواک کرنا سنت ہے۔
یہ دوسرا موقع ہے جہاں مسواک کرنا مسنون ہے۔ پہلا موقع نیند سے بیدار ہونے کے بعد کا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔‘‘ (مسند أحمد: 460/2، وصحیح ابن خزیمۃ: 73/1و 140۔)
امام بخاری نے تعليقاً صيغہ جزم كے ساتھ باب سواك الرطب واليابس ميں ذكر كيا هے.
ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضى الله عنہا فرماتی ہیں: ’’ہم آپ کے لیے مسواک اور طہارت کا پانی تیار رکھا کرتے تھے۔ اللہ جب چاہتا، رات میں آپ کو بیدار کرتا، پھر آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور نماز پڑھتے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 746۔)
نبی کریم ﷺ کے طریقۂ وضو کے بیان میں حضرت عثمان رضى الله عنه کی روایت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عثمان رضى الله عنه نے وضو کا پانی منگوایا اور وضو کیا۔ آپ نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے۔ وضو کرنے کے بعد فرمایا:
میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح میں نے کیا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 164، وصحیح مسلم، حدیث: 226۔)
نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے طریقۂ وضو کے بیان میں حضرت عثمان رضی الله عنه کی روایت ہے جس میں بتایا گیا ہے: انہوں نے تین مرتبہ ہاتھ دھونے کے بعد کلی کی، ناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑا اور چہرے کو تین مرتبہ دھویا۔ ( صحیح بخاری، حدیث: 199، وصحیح مسلم، حدیث: 226۔)
حضرت لقیط بن صبرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا: ’’خوب اچھی طرح وضو کرو اور انگلیوں میں خلال کرو اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو مگر یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ ( مسند أحمد: 211/4، وسنن أبی داود، حدیث: 142۔)
کلی کرنے میں مبالغہ کرنا حدیث کے اس جملے سے لیے گیا ہے: ’’خوب اچھی طرح وضو کرو۔‘‘
نبیِ کریم ﷺ کے طریقہ وضو کے بیان میں ایک روایت حضرت عبد اللہ بن زید رضی الله عنه سے مروی ہے۔ اُس میں انھوں نے کہا: … پھر آپ نے (برتن میں) ہاتھ ڈالا اور پانی لیا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا… (صحیح بخاری، حدیث: 192، وصحیح مسلم، حدیث: 235۔)
سر کا مسح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی سر کے آگے، پیشانی کے اوپر، جہاں سے سر کا آغاز ہوتا ہے وہاں دونوں ہاتھ رکھے اور انہیں پیچھے گدی تک لے جائے، پھر دونوں ہاتھ وہیں واپس لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔ عورت بھی سر کے مسح کے لیے اسی طریقے پر عمل کرے، تاہم سر کے جو بال گردن کے نیچے لٹکتے ہوں، اُن پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت اس کی دلیل ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ وضو کے بیان میں ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے: آپ ﷺ نے (سر کے مسح کا) آغاز سر کے آگے سے کیا ، پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے، پھر ہاتھوں کو اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے (مسح کا) آغاز کیا تھا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 185، وصحیح مسلم، حدیث: 235۔)
اعضائے وضو کا پہلی مرتبہ دھونا واجب ہے۔ دوسری اور تیسری مرتبہ دھونا سنت ہے۔ تین مرتبہ سے زیادہ نہیں دھونا چاہیے۔
اس کی دلیل ـ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 157۔)
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی ﷺ نے دو دو مرتبہ وضو کیا۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 158۔)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے تین تین مرتبہ وضو کیا۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 159۔)
افضل یہ ہے کہ ان تینوں روایتوں پر عمل کیا جائے۔ کبھی ایک ایک دفعہ، کبھی دو دو دفعہ اور کبھی تین تین دفعہ اعضائے وضو دھوئے جائیں۔
مختلف اعضائے وضو کو مختلف تعداد میں دھونا بھی درست ہے۔
مثال کے طور پر چہرہ تین دفعہ دھونا، ہاتھوں کو دو مرتبہ دھونا اور قدموں کو ایک مرتبہ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت میں ہے، (،زادالمعاد: 192/1۔)
تاہم اکثر اوقات اعضائے وضو تین تین دفعہ دھونے چاہئیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کی ہدایت یہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح پورا وضو کرتا ہے، پھر وہ کہتا ہے: أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلهَ أَلاَّ اللّهُ , وَأَنَّ مُحمَّداً عَبْدُ اللّهِ وَرَسُولُهُ ـ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
تو اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے کہ وہ جس میں سے چاہے داخل ہو جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 234۔)
یا پھر وہ دعا پڑھی جائے جو حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں آئی ہے: ’ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ, أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إلاَّ أَنْتَ, أَسْتَغْفِرُكَ وأَتُوبُ إلَيْكَ’’تو پاک ہے، اے اللہ،اور تیری ہی تعریف ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘
ان کلمات پر مہر لگا کر انہیں عرش تلے بلند کیا جاتا ہے۔ یہ مہر قیامت تک نہیں اتاری جائے گی۔ (عمل الیوم واللیلۃ للنسائی، ص: 147، والمستدرک للحاکم: 752/1۔)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نتائج الأفکار: 246/1۔)
انہوں نے مزید بیان کیا کہ یہ روایت اگرچہ مرفوعاً صحیح نہیں ، تاہم یہ موقوف ہے۔ لیکن اس میں کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ اس روایت کا حکم مرفوع ہی کا ہے، اس لیے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں ذاتی رائے کو کچھ دخل نہیں۔
(مطلب یہ کہ صحابی خود اپنے اجتہاد سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دعا پڑھنی چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے یہ دعا رسول اللہ ﷺ ہی سے سنی ہوگی)۔