حضرت ابوموسیٰ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت ابوعامر رضی الله عنه کو جیش اوساط کا قائد بنا کر روانہ کیا۔ حضرت ابوعامر رضی الله عنه شہید ہوگئے۔ شہادت سے پہلے انہوں نے ابوموسیٰ رضی الله عنه کو یہ وصیت کی کہ نبی ﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور یہ عرض کرنا کہ میرے لیے دعا فرمائیں۔
حضرت ابوموسیٰ رضی الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو تمام روداد سنائی اور ابوعامررضی الله عنه کے بارے میں بھی بتایا۔
میں نے عرض کیا کہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے عرض کروں کہ آپ اُن کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے پانی منگوایا، وضو کیا، ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اپنے ایک پیارے بندے ابو عامر کو بخش دے۔‘‘
(آپ ﷺ نے ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ) مجھے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر فرمایا: اے اللہ اس کو قیامت والے دن اپنی بہت ساری مخلوق سے یا اپنے بہت زیادہ بندوں سے زیادہ درجات عطا کرنا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 4323، وصحیح مسلم، حدیث: 2498۔)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه نے مجھ سے بیان کیا:
جب بدر کا دن تھا، رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا۔ وہ ایک ہزار تھے۔ آپ ﷺ کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ نبی ﷺ قبلہ رُو ہوئے، ہاتھ پھیلائے اور اپنے رب کو پکارنے لگے:
’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا ، اُسے پورا فرما۔ مجھ سے تو نے جس شے کا وعدہ کیا تھا، وہ مجھے عطا کر۔ اے اللہ! یہ مٹھی بھر اہل اسلام آج مارے گئے تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔‘‘
آپ قبلہ رُو، ہاتھ پھیلائے، اپنے رب کو پکارتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک کندھوں سے گر پڑی ۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنه آگے بڑھے۔ چادر اٹھائی اور کندھوں پر ڈال دی۔ پھر وہ آپ سے لپٹ گئے اور عرض کیا:
اللہ کے نبی! آپ کی دعا بہت کافی ہے۔ اللہ آپ سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 1763۔)
حضرت فضالہ بن عبید رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا۔ اُس نے دعا کی: اے اللہ! مجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما۔ آپ نے فرمایا: ’’اے دعا کرنے والے! تم نے جلدی کی۔ جب تم دعا کے لیے بیٹھ جاؤ تو اللہ کی حمد و ثنا کرو اُس طرح جس کا وہ اہل ہے اور مجھ پر درود بھیجو، پھر اللہ سے دعا کرو۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث: 3476۔)
دعا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اُن اسمائے حسنیٰ کا انتخاب کرے جو اُس کی دعا سے مطابقت رکھتے ہوں، مثلاً: وہ رزق کا سوال کرے تو کہے: ’’یا رازق۔‘‘ رحمت کا سوال کرے تو کہے: ’’یا رحمان، یا رحیم۔‘‘ عزت کا سوال کرے تو کہے: ’’یا عزیز۔‘‘ مغفرت کا سوال کرے تو کہے: ’’یا غفور۔‘‘ شفا کا سوال کرے تو کہے: ’’یا شافی۔‘‘ یوں وہ اُن اسمائے حسنیٰ کے واسطے سے دعا کرے جو اس کی دعا سے مناسبت رکھتے ہوں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا ’’اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، لہٰذا تم اسے ان (ناموں) سے پکارو۔‘‘ (الأعراف 180:7۔ )
دعا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بار بار دعا کرے۔ دعا کے الفاظ بار بار دہرائے۔ دعا کرنے میں نہایت اصرار سے کام لے، نہایت آہ وزاری کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ تادیر نہایت اصرار اور الحاح و زاری سے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ کندھوں پر سے چادر مبارک گر پڑی، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے کہہ رہے تھے اے اللہ کے رسول ﷺ کافی دُعا ہو چکی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 1763۔ )
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ نے دوس کے لیے دعا کی تو آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ۔ اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور انھیں لے آ۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2937۔)
ایک دوسری روایت میں ہے: ’’آدمی لمبا سفر کرتا ہے۔ بال پراگندہ، غبار آلود۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 1015۔)
اس تکرار میں بھی الحاح و زاری ہے۔
آدمی کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ تین مرتبہ دعا کرے۔ حضرت ابن مسعود رضی الله عنه کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جب دعا کرتے تو تین مرتبہ دعا کرتے تھے، اور جب سوال کرتے تو تین دفعہ سوال کرتے تھے ، پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہ کہا اے اللہ قریش کو ہلاک کر(صحیح بخاری ، حدیث: 240، وصحیح مسلم، حدیث: 1794۔)
ارشادِ ربانی ہے: ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ ’’تم اپنے رب کو آہ و زاری کرتے ہوئے ، چپکے چپکے پکارو۔‘‘ (الأعراف 55:7۔)
پوشیدہ طور پر، چھپا کر، آہستہ سے دعا کرنا اخلاص کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا عليه السلام کے اس عمل کی تعریف فرمائی۔
ارشاد باری تعالیٰ: اذ نادی ربہ نداء خفیا ’’جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آواز سے پکارا۔‘‘ (مریم 3:19۔)
دنیا اور آخرت کے معاملات میں جس بھی معاملے کے متعلق آپ کو مانگنا ہے، آپ مانگیے۔
یہ کوشش کیجیے کہ آپ کی دعائیں جامع کلمات پر مشتمل ہوں۔ ایسی دعائیں کتاب و سنت میں آئی ہیں۔ ایسی دعاؤں میں دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا سوال کیا جاتا ہے۔
یہ سوال نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ آپ نے جواب میں بہت عظیم دعائیہ کلمات بتائے تھے جو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر مشتمل ہیں۔ یہ بہت بڑی بشارت ہے۔ دعاؤں میں ان کلمات کو حرزِ جان بنانا چاہیے۔
حضرت ابومالک اشجعی رحمہ اللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔ ایک صاحب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں اپنے رب سے سوال کروں تو کیا کہوں؟ فرمایا: ’’یوں کہو:
’اَللّٰھُمَّ! اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي‘ ’’اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔‘‘
آپ نے انگوٹھے کو چھوڑ کر ساری انگلیاں جمع کیں۔ یہ کلمات تمھارے لیے تمھاری دنیا اور تمھاری آخرت کو اکٹھا کر دیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2697۔)
ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا تو نبی ﷺ اسے نماز سکھاتے پھر اسے ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ارشاد فرماتے: ’اَللّٰھُمَّ! اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَاھْدِنِي وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي‘ ’’اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2697۔)
ایسی دعا باذن اللہ تعالیٰ قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ یہ دعا، دعا کرنے والے کے لیے بڑے اجروثواب کا باعث بنتی ہے۔
حضرت ابودرداء رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ ایک مسلمان کی اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں کی ہوئی دعا، قبول کی ہوئی ہے۔ اُس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مأمور ہوتا ہے۔ وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے، فرشتۂ مأمور کہتا ہے: آمین۔ اور تمھارے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ (صحیح مسلم، حدیث: 2733۔ )