حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پرچھ حقوق ہیں۔‘‘ کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہیں؟ فرمایا: ’’جب تم اُس سے ملو تو اُسے سلام کہو۔ جب وہ تمھیں بلائے (دعوت دے) تو اُس کے بلاوے پر جاؤ (دعوت قبول کرو)۔ جب وہ تم سے خیر خواہی کا مشورہ چاہے تو اُسے خیر خواہی سے مشورہ دو۔ جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو اُس کا جواب دو۔ (اُسے دعا دو)۔ جب وہ بیمار پڑے تو اُس کی عیادت کرو۔ جب وہ وفات پاجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2162۔)
جہاں تک سلام کا جواب دینے کا تعلق ہے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيباً} ’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا وہی الفاظ لوٹا دو، بے شک اللہ ہر چیز کا خوب حساب لینے والا ہے۔‘‘ (النسآء 86:4۔)
صیغۂ امر (حکم) کے متعلق بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ صیغۂ امر کسی بات کے واجب کرنے کے لیے آتا ہے جب تک اسے اس خصوصیت سے ہٹانے والا کوئی قرینہ نہ ہو جسے اصطلاحِ فقہاء میں ’’صارفہ‘‘ کہتے ہیں۔
یہاں اس کا کوئی صارفہ نہیں۔ متعدد اہل علم نے اس پر اتفاقِ رائے (اجماع) قائم ہونے کی بات بھی لکھی ہے جن میں امام ابن حزم، امام ابن عبدالبر اور الشیخ تقی الدین شامل ہیں۔
سلام کہنے اور جوابی سلام کے افضل الفاظ یہ ہیں: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ اور ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ سلام کہنے کا یہی طریقہ زیادہ مستحسن اور کامل ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نبی کریم ﷺ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ ’’وبرکاتہ‘‘ تک پورا سلام کہا کرتے تھے۔ (زاد المعاد: 417/2)
سلام عام کرنا بھی سنت ہے جس کی بڑی ترغیب دی گئی اور بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کی روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم ایمان لے آؤ۔ اور تم ایمان نہیں لاؤ گے یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک کام ایسا نہ بتاؤں کہ جسے تم انجام دو تو تم آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ فرمایا: اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 54۔)
مثال کے طور پر آدمی سلام کہے لیکن اُسے شبہ ہو کہ جسے اُس نے سلام کہا ہے، اُس نے نہیں سنا۔ اس صورت میں یہ مستحب ہے کہ وہ دوسری مرتبہ سلام کہے۔ پھر بھی نہ سنے تو تیسری مرتبہ بھی سلام کہہ دے۔
اسی طرح جو شخص ایسے لوگوں کی بڑی تعداد کے پاس جائے جو ایک بڑی مجلس میں شریک ہوں۔ اس صورت میں اگر آدمی ایک مرتبہ سلام کہے تو ممکن ہے کہ صرف آگے بیٹھے ہوئے لوگ ہی سن سکیں، اس لیے چاہیے کہ آدمی تین مرتبہ سلام کہے تاکہ تمام محفل کے لوگ سلام کی آواز سن لیں۔
اس كي دليل: حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کوئی بات کرتے تو اُسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ جب آپ ﷺ لوگوں کے پاس تشریف لاتے تو انہیں تین مرتبہ سلام کہتے تھے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 95۔)
حضرت انس رضی الله عنہ کی روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بات کو تین مرتبہ کہنا سنت ہے۔ مثال کے طور پر آدمی بات کرے لیکن وہ سمجھ میں نہ آئے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی بات دہرا دے۔ اگر ضرورت پڑے تو تیسری مرتبہ بھی اپنی بات کہہ دے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سوار، پیدل کو سلام کرے۔ پیدل، بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑے افراد، زیادہ کو سلام کریں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6233، وصحیح مسلم، حدیث: 2160۔)
ایک روایت میں ہے: ’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے افراد، زیادہ کو سلام کریں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6234۔)
تاہم حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو مکروہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بڑا چھوٹے کو اور پیدل، سوار کو سلام کہہ دے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جارہے تھے۔ آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے اُنہیں سلام کہا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 6247، وصحیح مسلم، حدیث: 2168۔)
بچوں کو سلام کرنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ دل میں عجز و انکسار آئے، دوسرے، بچوں کو بھی سلام کہنے کی عادت پڑے، اور اسلام کا یہ شعار اُن کے دلوں میں جڑ پکڑے۔
یہ بات سلام کے عمومی حکم میں شامل ہے۔ گھر میں جانے سے پہلے مسواک کرنا بھی سنت ہے۔ یوں پہلے مسواک کی جائے، پھر گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کہا جائے۔
یہ وہ چوتھا موقع ہے جہاں مسواک کرنا سنت مؤکدہ کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب گھر آتے تو پہلے مسواک کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 253۔)
یعنی آدمی مسواک کرے، گھر آئے اور اہل خانہ کو سلام کرے۔ بعض اہل علم نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ کسی بھی گھر میں جا کر سلام کہنا سنت ہے، چاہے گھر میں کوئی بھی موجود نہ ہو ـ
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون} [النور:61] . ’’پھر جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کہنا، جو اللہ کی طرف سے (مقرر دعائے خیر) ہے بابرکت، پاکیزہ، اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھو۔‘‘ (النور 61:24۔)
آیت میں وارد حکم عام نوعیت کا ہے۔ اس میں سبھی نفوس شامل ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’أَنْفُسِکُمْ‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی نہ ہو تب بھی سلام کہے۔ كيونكه الله تعالى كا فرمان ہے {فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ} (فتح الباري، شرح حدیث: 6235۔ ) باب إفشاء السلام.
فائدہ: حاصلِ کلام یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کے سلسلے میں تین کام مسنون ہیں:
پہلا: بسم اللہ کہنا، بالخصوص رات کے وقت۔
حضرت جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جب آدمی گھر جاتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے وقت، نیز کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے) کہتا ہے: تمھارے لیے یہاں ٹھہرنے کی جگہ ہے نہ کھانا ہے، اور جب کوئی آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے: تمھیں رات بسر کرنے کا ٹھکانا بھی مل گیا اور رات کا کھانا بھی۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2018۔)
دوسرا : مسواک کرنا۔ یہ امر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 253۔)
تیسرا: اہل خانہ کو سلام کرنا۔
نبی کریم ﷺ کا مبارک طرزِ عمل یہی تھا۔
حضرت مقداد بن اَسود رضی الله عنه کی روایت میں ہے: ہم دودھ دوہتے تھے اور ہم میں سے ہر آدمی اپنے حصے کا دودھ پی لیتا تھا۔ نبی ﷺ کے حصے کا دودھ ہم اٹھا رکھتے۔ آپ رات کو تشریف لاتے تو اس طرح سلام کہتے کہ سویا ہوا شخص جاگتا نہیں تھا اور جاگتا ہوا آدمی سن لیتا تھا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 2055۔)
سلام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص تم سے کہے کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا۔ تو یہ سنت ہے کہ تم اُس شخص کا سلام متعلقہ آدمی کو پہنچا دو کہ فلاں نے تمھیں سلام کہا ہے۔
اس كي دليل: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اُن سے کہا: ’’جبریل تمہیں سلام کہتے ہیں۔‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے جواب دیا: وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3217، وصحیح مسلم، حدیث: 2447۔)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سلام کو دوسرے شخص تک پہنچانا چاہیے جس طرح حضرت جبریل عليہ السلام کا سلام آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضى الله عنہا کو پہنچایا۔
حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کسی کے ہاتھ سلام بھیجنا بھی سنت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مجلس میں آئے تو سلام کہے۔ جب وہ وہاں سے اٹھنا چاہے تب بھی سلام کہے۔ پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔‘‘ (سنن أبی داود، حدیث : 5208، وصحیح الجامع: 132/1۔)
صحابۂ کرام کا طرزِ عمل یہی تھا کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو سلام کہنے کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتے تھے۔
اس كي دليل: حضرت قتادہ رضی الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنه سے پوچھا: کیا نبی ﷺ کے اصحاب میں مصافحہ ہوتا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 6263۔)
حضرت ابو ذر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم نیکی میں سے کسی شے کو ہرگز حقیر مت جانو، چاہے (اتنی سی نیکی ہو کہ) تم اپنے بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2626۔)
حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھارا تمھارے بھائی کے منہ پر مسکرا دینا تمھارے لئے صدقہ ہے۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث : 1956، والصحیحۃ، حدیث : 572۔)
چاہے کسی سے ملاقات ہو، آدمی مجلس میں بیٹھا ہو یا کوئی اور صورت حال ہو، اچھی بات کہنا بہر حال سنت ہے کیونکہ یہ صدقہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھی بات صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2989، وصحیح مسلم، حدیث: 1009۔)
دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اگر وہ اس سلسلے میں ثواب کی نیت رکھیں تو بڑے اجروثواب کے مستحق قرار پائیں اور ان صدقات میں سے بڑا حصہ پائیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے لکھا ہے: مثال کے طور پر اچھی بات یہ ہے کہ تم کسی سے کہو: تم کیسے ہو؟ مزاج کیسا ہے؟ تمھارے بھائی کیسے ہیں؟ گھر بار میں ہر طرح کی خیریت ہے؟ اور اسی طرح کی دیگر باتیں۔
یہ اچھی باتیں اس لیے ہیں کہ یہ مخاطب کو خوشی دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر اچھی بات کے لیے صدقے کا اجروثواب ہے۔ (شرح ریاض الصالحین: 996/2، باب: استحباب طیب الکلام، وطلاقۃ الوجہ عند اللقائ۔)
مجالس ذکر کی فضیلت و ترغیب کے متعلق متعدد احادیث ملتی ہیں۔
ایک روایت حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ وہ اہل ذکر کو تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہوں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: آجاؤ اپنی ضرورت کی طرف۔ تب وہ اہل ذکر کو اپنے پروں سے آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 6408، وصحیح مسلم، حدیث: 2689۔)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو جس میں اُس کا شوروغل بہت بڑھا ہو، پھر وہ مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ پڑھ لے:
’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ‘
’’پاک ہے تو اے اللہ! اور تیری ہی حمد ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر تو۔ میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں، اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ اُس مجلس میں اُس سے جو کچھ بھی سرزد ہوا، وہ معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث: 3433۔)