حضرت عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے زیر پرورش تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے میرا ہاتھ پلیٹ میں گھومتا رہتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’بچے! اللہ کا نام لو۔ داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اُس جگہ سے کھاؤ جو تمھارے آگے ہے۔‘‘ چنانچہ اُس دن کے بعد میرے کھانے کا طریقہ آپ ﷺ کے حسبِ ارشاد ہی رہا۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 5376، وصحیح مسلم، حدیث: 2022۔)
اگر بسم اللہ کہنا بھول جائے تو جونہی یاد آئے، یہ پڑھ لے: ’بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ‘
جیسا کہ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ذکر ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے (بسم اللہ کہے)۔ اگر وہ کھانے کے شروع میں اللہ کا نام لینا بھول جائے تو یوں کہے: ’بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ‘ یعنی ’’اللہ کے نام سے، کھانے کے شروع میں اور اس کے آخر میں۔‘‘ (سنن أبي داود، حدیث: 3767، وجامع ترمذی، حدیث: 1858، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے: (صحیح الجامع: 282/1)۔)
اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کھانا ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ کھانا کھانے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔ اور مسلمان جب بسم اللہ نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے کھانے میں شریک ہو جاتا ہے اور جب وہ بائیں ہاتھ سے کھائے پیے تو شیطان کے مشابہ ہو جاتا ہے۔
اس کی دلیل
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ کے ساتھ ہرگز نہ کھائے نہ بائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ کے ساتھ کھاتا اور اسی کے ساتھ پیتا ہے۔‘‘
راویءِ حدیث کہتے ہیں کہ نافع رحمہ اللہ اس روایت میں یہ بھی اضافہ کرتے تھے: ’’نہ بائیں ہاتھ سے (کوئی شے) لے، نہ بائیں ہاتھ سے (کوئی شے) دے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2020۔)
شیطان کو گھروں میں داخل ہونے، وہاں رات بسر کرنے اور اہل خانہ کے کھانے پینے میں شریک ہونے کا بہت شوق ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے، وہ داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے) کہتا ہے: تمھارے لیے (یہاں) نہ رات بسر کرنے کا ٹھکانا ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے) کہتا ہے تمھیں رات بسر کرنے کا ٹھکانا مل گیا۔ اور جب وہ کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے تمھیں رات بسر کرنے کا ٹھکانا بھی مل گیا اور رات کا کھانا بھی۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2018۔)
حضرت جابر رضی الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں : میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’شیطان آدمی کے ہر اہم معاملے میں اُس کے پاس آتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کھانا کھاتے وقت بھی اُس کے پاس آتا ہے۔ اس لیے جب اُس کے ہاتھ سے لقمہ گر پڑے تو اُسے چاہیے کہ اُس لقمے سے گرد ہٹا کر اُسے کھا لے اور اُسے شیطان کے لیے باقی نہ چھوڑے۔ جب وہ کھانا کھا لے تو انگلیاں چاٹ لے۔ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2033۔)
حدیث پر غوروفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان کو انسان کے تمام معاملات میں دخل اندازی کرنے کا بہت شوق ہے۔ یہ دخل اندازی وہ اس لیے کرتا ہے کہ انسان کے کسی کام میں برکت نہ آنے پائے۔
حدیث کے الفاظ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو آدمی کے معاملات میں دخل اندازی کا کتنا شوق ہے اور وہ اس سلسلے میں کتنی تگ و دو کرتا ہے۔
کھانا کھانے کے بعد یہ سنت ہے کہ آدمی انگلیاں چاٹ لے یا کسی کو (مثلاً بیوی کو) انگلیاں چٹا دے۔
انگلیاں چاٹنے سے پہلے رومال یا ٹشو پیپر وغیرہ سے صاف نہ کی جائیں. جس كی دليل: حضرت جابر رضی الله عنہ کی مذکورہ روایت ہے۔
سیدنا ابن عباس کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ وہ چاٹ لے یا اُسے چٹوادے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5456، وصحیح مسلم، حدیث: 2033)
برتن صاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر جو شخص چاول کھا رہا ہے وہ برتن کے اندر سے اور برتن کے کناروں پر سے چاول اچھی طرح صاف کردے۔
اگر ایک برتن میں دو یا دو سے زائد افراد کھانا کھا رہے ہیں تو ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی طرف کا کنارہ اچھی طرح صاف کردے اور اُس میں کھانا باقی نہ رہنے دے۔
ممکن ہے برکت اُسی کھانے میں ہو جو برتن میں باقی رہ گیا ہو ۔
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم برتن صاف کیا کریں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 2034۔)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر شخص کو برتن صاف کرنا چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2035۔)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم برتن کے کناروں سے کھانے کو انگلیوں سے اچھی طرح صاف کر دو اور انگلیاں چاٹ لو۔
یہ ایسی سنت ہے جس سے، افسوس ہے، کہ بہت سے لوگ غافل ہیں یہاں تک کہ بعض دینی طلبہ بھی اس سے غفلت برتتے ہیں۔ (شرح ریاض الصالحین: 892/1۔)
تین انگلیوں سے کھانا کھانا بھی مسنون ہے۔ یہ حکم کھانے کی اُن چیزوں کے لیے ہے جو تین انگلیوں سے بآسانی اٹھائی جاسکتی ہیں، جیسے کھجور اور اس جیسے دیگر میوے۔
حضرت کعب بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں سے کھایا کرتے تھے۔ اور ہاتھ صاف کرنے سے پہلے اُسے چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 2032۔)
تین وقفوں میں پانی پینا سنت ہے۔ ہر وقفے کے بعد سانس لینا چاہیے۔
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ پینے کے دوران تین مرتبہ سانس لیتے اور فرماتے تھے: ’’یہ طریقہ زیادہ سیراب کرنے والا اور زیادہ پیاس بجھانے والا ہے۔ اس سے پانی حلق سے نیچے اترنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔‘‘
انس رضی الله عنه نے کہا: اسی لیے میں بھی پینے کے دوران تین مرتبہ سانس لیتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5631، وصحیح مسلم، حدیث: 2028)
سانس لینے کا مطلب یہ ہے کہ برتن میں سانس نہ لیا جائے بلکہ برتن ایک طرف ہٹا کر برتن کے باہر سانس لیا جائے۔
برتن میں سانس لینا مکروہ ہے کیونکہ حضرت ابوقتادہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی پیے تو برتن میں سانس نہ لے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5630، وصحیح مسلم، حدیث: 267۔)
اس سنت کی دلیل: حضرت انس بن مالک رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ وہ کھانا کھائے اور اُس پر اُس کا شکر ادا کرے اور پانی پیے تو اُس پر اُس کا شکر ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2734۔)
کھانا کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے متعدد دعائیں منقول ہیں، انہیں پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیراً طَیِّباً مُبَارَکًا فِیہِ، غَیْرَ مَکْفِيٍّ، وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا‘ ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں (تعریفیں) بہت زیادہ ، پاکیزہ اور اس میں برکت ڈالی گئی ہے ، نہ (یہ کھانا) کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے) اور نہ اسے وداع کیا گیا، یعنی یہ ہمارا آخری کھانا نہیں ہے بلکہ جب تک زندگی ہے، کھاتے رہیں گے اور نہ اس سے بے نیاز ہوا جاسکتا ہے، اے ہمارے رب۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5458۔)
’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي کَفَانَا وَأَرْوَانَا، غَیْرَ مَکْفِيٍّ وَلَا مَکْفُورٍ‘ ’’سب حمد اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کافی کھلایا اور ہمیں سیراب کر دیا۔ نہ (یہ کھانا) کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے) اور نہ ہم اس نعمت کے منکر ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5459۔)
(غیر مکفی) یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں۔ وہی اپنے بندوں کو کھلاتا ہے اور وہی اُن کے لیے کافی ہے۔ (ولا مودع) یعنی اُسے چھوڑ ا نہیں گیا۔
(کفانا) یہ کفایت سے ماخوذہے۔
(أروانا) یہ ری سے ماخوذ ہے یعنی سیراب کرنا۔
( ولا مکفور) یعنی اُس کی فضیلت اور اُس کے انعامات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مل کر کھانا سنت ہے۔ اہل خانہ کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سب مل کر کھانا کھائیں۔ بجائے اس کے کہ ہر کوئی اپنا کھانا الگ الگ لے کر کھائے۔
حضرت جابر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہے۔ دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے۔ اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لیے کافی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2059۔)
کھانا پسند آئے تو اُس کی تعریف کرنا سنت ہے۔
حضرت جابر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے اہل خانہ سے سالن مانگا۔ انھوں نے کہا: ہمارے پاس تو صرف سرکہ ہے۔ آپ نے سرکہ ہی منگوا لیا، اُسے کھانے لگے۔ پھر فرمایا: ’’سرکہ اچھا سالن ہے۔ سرکہ اچھا سالن ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2052۔)
سرکہ عربوں کے ہاں سالن کے طور پر مستعمل تھا۔ اُن کا سرکہ میٹھا ہوتا تھا۔ آج کل کے سرکے کی طرح کھٹا نہیں ہوتا تھا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ بھی نبی ﷺ کی ایک سنت ہے کہ اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو آپ اُس کی تعریف کرتے تھے۔
مثال کے طور پر تم روٹی کی تعریف کرو تو یوں کہہ سکتے ہو: ’’بنو فلاں کی روٹی بہت اچھی ہوتی ہے۔‘‘ یا اسی طرح کے دیگر جملے کہے جائیں۔ یہ رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
آج کل لوگوں کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ نہ صرف یہ کہ سنت کے تارک ہیں بلکہ وہ سنت کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر وہ کھانے میں کیڑے نکالتے ہیں بلکہ بعض دفعہ کھانے کو بھی سخت برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ سنت نبوی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی ایک روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ طلب ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3563، وصحیح مسلم، حدیث: 2064۔)
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ میرے والد کے یہاں تشریف لائے۔ ہم نے کھانا اور وطبہ ، یعنی گھی ، پنیر اور کھجور سے تیار کردہ حلوہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپ نے اُس میں سے کھایا۔ پھر چند چھوہارے آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ آپ وہ چھوہارے کھاتے اور گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے تھے۔ انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو آپ نے ملا رکھا تھا۔ اس کے بعد شربت لایا گیا۔ آپ نے شربت بھی نوش فرمایا اور پھر اُس شخص کو دے دیا جو دائیں طرف بیٹھا تھا۔
میرے والد نے آپ ﷺ کی سواری کی لگام تھام رکھی تھی۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کی: ہمارے لیے دعا کیجیے۔
آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو نے انہیں جو رزق عطا کیا ہے اُس میں ان کے لیے برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم کر۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2042۔)
وطبہ سے مراد کھجور جمع کرنے والا برتن ہے۔
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپ نے کچھ پلانے کو کہا۔ ہم نے ایک بکری کا دودھ دوہا، بعدازاں میں نے اُس دودھ میں اپنے کنویں کا پانی ملایا۔ پھر وہ دودھ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔
آپ ﷺ نے پیا۔ سیدنا ابوبکر رضی الله عنه آپ کی بائیں طرف بیٹھے تھے، سیدنا عمر رضی الله عنه سامنے تھے اور ایک اعرابی دائیں طرف تھا۔
آپ ﷺ نے دودھ نوش کر لیا تو عمررضی الله عنه نے کہا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر ہیں۔ وہ آپ کی توجہ اُن کی طرف مبذول کرا رہے تھے۔ لیکن آپ نے ابوبکر و عمررضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر وہ دودھ اُس اعرابی کو دیا اور تین مرتبہ فرمایا: ’’دا ہنی طرف والے، داہنی طرف والے، داہنی طرف والے۔‘‘
حضرت انس رضی الله عنه نے کہا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے۔(صحیح بخاری، حدیث: 2571، وصحیح مسلم، حدیث: 2029۔)
جو شخص دوسروں کو پانی، شربت وغیرہ پلا رہا ہو، اُس کے لیے سنت ہے کہ وہ خود سب سے آخر میں پیے۔
حضرت ابوقتادہ رضی الله عنه کی طویل روایت ہے … پھر رسول اللہ ﷺ پانی ڈالتے رہے اور میں لوگوں کو پلاتا رہا تا آنکہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ آپ نے اور پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ’’پیو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب تک آپ نہیں پیتے، میں نہیں پیوں گا۔‘‘ فرمایا: ’’قوم کا ساقی سب سے آخر میں پیتا ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے پانی پیا اور پھر رسول اللہﷺ نے پانی نوش فرمایا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 681۔)
فائدہ: جو شخص دودھ پیے، اُس کے لیے سنت ہے کہ وہ دودھ پی کر کلی کرے تاکہ منہ سے دودھ کی چکنائی دور ہوجائے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دودھ پیا اور پھر پانی منگوا کر کلی کی۔ فرمایا: ’’اس کی چکنائی ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 211، وصحیح مسلم، حدیث: 358۔)
رات ہو جائے تو سنت یہ ہے کہ کھلے برتن ڈھانپ دیے جائیں، چھاگل کا منہ مضبوط باندھ دیا جائے اور اللہ کا نام لیا جائے (بسم اللہ پڑھی جائے)۔
حضرت جابر رضی الله عنه سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’برتن ڈھانپ دو۔ چھاگلوں کے تسمے باندھ دو۔ سال بھر میں ایک رات ایسی ہے جس میں وبا اترتی ہے۔ وہ وبا جس کھلے برتن اور کھلی چھاگل کے قریب سے گزرتی ہے، اُس میں داخل ہوجاتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2014۔)
حضرت جابر رضی الله عنه ہی کی ایک اور روایت میں ہے: ’’اپنی چھاگلوں کے تسمے باندھ دو اور اللہ کا نام لو۔ اپنے برتن ڈھانپ دو اور اللہ کا نام لو۔ چاہے تم برتنوں پر کوئی شے عرض کے بل رکھ دو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5623۔)