چار رکعت اور تین رکعت کی نماز میں آخری تشہد کے علاوہ نماز میں جب بھی بیٹھنا ہے، اسی طرح بیٹھنا ہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی الله عنه کی مرفوع روایت میں ہے : جب آپ ﷺ دو رکعت میں بیٹھے تو بائیں پیر پر بیٹھے اور دایاں پیر کھڑا کیا۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 828۔)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے: اور آپ ہر دو رکعت میں التحیات پڑھتے تھے۔ تشہد میں آپ اپنا بایاں پیر بچھا لیتے اور دایاں پیر کھڑا کر لیتے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 498۔)
تین اور چار رکعتی نماز کی آخر ی التحیات سے متعلقہ تفصیلات آئندہ آئیں گی ۔
سنت کے مطابق اس کے دو طریقے ہیں۔ دونوں پر گاہے گاہے عمل کرنا چاہیے۔
نمبر 1: دونوں ہاتھ رانوں پر رکھ لیے جائیں۔
نمبر 2: دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیے جائیں۔
اس طرح کہ بائیں ہاتھ نے بائیں گھٹنے کو پکڑ رکھا ہو۔ بایاں ہاتھ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ چاہے ران پر ہو، چاہے گھٹنے پر، دائیں ہاتھ کو البتہ کھلا نہیں رکھنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے۔ تمام انگلیاں بند کر لیتے۔ انگوٹھے کے ساتھ والی اُنگلی سے اشارہ کرتے۔ اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 580۔ صحیح مسلم، حدیث: 579۔)
دوران تشہد دایاں ہاتھ رکھنے کے دو مسنون طریقے ہیں:
پہلا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی تمام انگلیاں بند رہیں سوائے شہادت کی انگلی کے۔ بایاں ہاتھ سیدھا کھلا رہے جیسا کہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت ہے: ’’… آپ نے تمام انگلیاں بند کیں اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کیا…‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 580۔)
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تریپن (53) کی گرہ باندھیں۔
وہ اس طرح سے کہ سب سے چھوٹی اور اُس کے برابر کی انگلی بند رہے۔ انگوٹھا درمیانی انگلی کے ساتھ مل کر حلقہ بنائے۔ شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا جائے۔
حضرت ابن عمررضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے: نبی ﷺ جب تشہد (التحیات) میں بیٹھتے تو بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے۔ تریپن (53) کی گرہ باندھتے۔ اور سبابہ (انگشتِ شہادت) سے اشارہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث: 580۔)
احادیث میں تشہد کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں، گاہے بگاہے انھیں پڑھنا چاہیے تاکہ سنت پر پوری طرح سے عمل ہوسکے۔
’اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ‘ ’’(میری ساری) قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں ۔ سلام ہو آپ پر اے نبی ﷺ اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اور شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث: 1202، وصحیح مسلم: حدیث: 402۔)
’اَلتَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُ …‘ اس سے آگے پہلے تشہد والے الفاظ ہی ہیں۔ اَلْمُبَارَکَاتُ: بابرکت۔ الطَّیِّبَاتُ: پاکیزہ۔ (صحیح مسلم، حدیث: 403۔)
’اَلتَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ …‘ اس سے آگے پہلے تشہد والے الفاظ ہی ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 403۔)
تین اور چار رکعتی نماز کے دوسرے اور آخری تشہد (التحیات) میں تورک کرنا سنت ہے۔
تورک کے معنی ہیں ورک پر بیٹھنا۔ ورک عربی میں سرین کو کہتے ہیں۔
تورک کی دو صورتیں حدیث میں بیان ہوئی ہیں:
دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اور بائیں پاؤں کو اُس کے نیچے سے نکال کر زمین پر بائیں سرین کے سہارے بیٹھنا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 828۔)
دونوں پاؤں بچھا کر دائیں جانب نکالنا اور زمین پر سرینوں کے بل بیٹھنا۔ (سنن أبي داود، حدیث: 731، وصحیح ابن حبان، حدیث: 1867، والسنن الکبریٰ للبیھقي: 128/2۔)
یاد رہے، صحیح بات یہ ہے کہ تورک ہر آخری تشہد میں نہیں بلکہ یہ تین رکعتی اور چار رکعتی نماز کے آخری تشہد ہی میں ہے۔ دو رکعتی نماز کے تشہد میں تورک نہیں۔
درود شریف کے مختلف صیغے حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ گاہے گاہے تمام صیغے پڑھنے چاہئیں:
’اَللّٰھُمَّ! صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ۔ اَللّٰھُمَّ! بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ‘
’’اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد پر جس طرح تونے رحمت کی ابراہیم(عليه السلام) اور آل ابراہیم پر۔ بلاشبہ تو ہی تعریف والا، عظمت والا ہے۔ اے اللہ! برکت دے محمد ﷺ پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت دی ابراہیم(عليه السلام) پر اور آل ابراہیم پر۔ بلاشبہ تو ہی تعریف والا، عظمت والا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث: 3370۔)
کعب بن عجرۃ کی حدیث سے۔ ’اَللّٰھُمَّ! صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ فِي الْعَالَمِینَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ‘ ’’اے اللہ! رحمت کر محمد ﷺ پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے رحمت کی آل ابراہیم پر۔ اور برکت دے محمد ﷺ پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت دی آل ابراہیم پر، سب جہانوں میں۔ بلاشبہ تو ہی تعریف والا، عظمت والا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 405۔)
ابو مسعود الأنصاری کی حدیث سے۔ ’اَللّٰھُمَّ! صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی أَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی أَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘ ’’اے اللہ! رحمت کر محمد ﷺ پر اور آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد پر جس طرح تو نے رحمت کی آل ابراہیم پر۔ اور برکت دے محمد ﷺ پر اور آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد پر۔ جس طرح تو نے برکت دی آل ابراہیم پر۔ بلاشبہ تو ہی تعریف والا، عظمت والا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث: 3369، وصحیح مسلم، حدیث: 407۔)
جمہور علماء کے نزدیک چار چیزوں سے پناہ طلب کرنا سنت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:" إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهِّدِ الآخِرِ, فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللّهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ , وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ, وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ, وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ" ’’جب تم میں سے کوئی شخص آخری تشہد سے فارغ ہوجائے تو وہ چار باتوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے: عذاب جہنم سے، عذاب قبر سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 588۔ صحیح بخاری، حدیث: 832،)
’اَللّٰھُمَّ! إِنِّي أَعُوذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ‘ ’’اے اللہ! میں گناہوں اور قرض سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 832، وصحیح مسلم، حدیث: 589۔)
’اَللّٰھُمَّ! إِنِّي أَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَأَعُوذُبِکَ مِنَ النَّارِ‘ ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا اور نارِ جہنم سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (سنن أبی داود، حدیث: 792۔)
’اَللّٰھُمَّ! إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا کَثِیرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْلِي مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِي، إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ‘ ’’اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے اور تیرے سوا گناہوں کوئی نہیں بخش سکتا، اس لیے تو اپنی خاص مغفرت سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما ، بلاشبہ تو ہی بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث: 6326، وصحیح مسلم، حدیث: 2705۔)
’اَللّٰھُمَّ! أَعِنِّي عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘ ’’اے اللہ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر، تیرا شکر اور تیری خوب عبادت کرتا رہوں۔‘‘ (سنن أبی داود، حدیث: 1522، وسنن نسائی، حدیث: 1304۔)
’اَللّٰھُمَّ! إِنِّي أَعْوذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُبِکَ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا، وَأَعُوذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘ ’’اے اللہ! میں بخیلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ سب سے گھٹیا عمر (زیادہ بڑھاپے) کی طرف لوٹایا جاؤں ۔ اور میں فتنۂ دنیا اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر سے۔‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث: 6370۔)
’اَللّٰھُمَّ! حَاسِبْنِي حِسَاباً یَسِیراً‘ ’’اے اللہ! تو میرا حساب آسان فرما۔‘‘ (مسند أحمد: 48/6۔)
یہ دعائیں کرنے کے بعد دائیں اور بائیں منہ پھیر کر ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ کہنا سنت ہے۔ منہ پھیرنے میں مبالغہ کرنا بھی سنت ہے۔
نبی کریمﷺ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جب آپ سلام پھیرتے تو مقتدیوں کو آپ کے رخسار مبارک کا گورا پن دکھائی دیتا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کرتا تھا، آپ دائیں بائیں سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کا گورا پن دکھائی دیتا تھا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 582۔)