languageIcon
بحث
بحث
brightness_1 بیت الخلا میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا

جو شخص بیت الخلا میں جانا چاہے، اُسے مسنون ذکر کرنا چاہیے۔

حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو یہ کہتے: ’اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ‘ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنیوں سے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6322، وصحیح مسلم، حدیث: 375۔)

(الخبث) مذکر شیطان۔ (الخبائث) مؤنث شیطان۔

یوں آدمی مذکر اور مؤنث شیطانوں کے شر سے پناه میں آجاتاہے۔

(الخبث) شر۔ (الخبائث) شریر لوگ۔ یوں آدمی شریر لوگوں سے اور ان کے شر سے پناہ میں آجاتاہے۔

الخبث زیادہ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔

بیت الخلا سے نکلنے پر بھی مسنون ذکر کرنا چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی ﷺ جب بیت الخلا سے نکلتے تو کہتے: ’غُفْرَانَکَ‘ ’’تیری مغفرت (چاہتا ہوں)۔‘‘ (سنن أبي داود، حدیث: 30، وجامع ترمذی، حدیث:7)

امام البانی رحمہ اللہ اسے صحیح کہا ہےـ

brightness_1 وصیت لکھ رکھنا مسنون ہے

وصیت لکھ کر تیار رکھنا ہر مسلمان کے لیے مسنون ہے، خواہ وہ تندرست ہو، یا بیمار۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کو جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کی وصیت کرنا چاہتا ہو، اُسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دو راتیں اس طرح بسر کرے کہ اُس کی وصیت اُس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2738، وصحیح مسلم، حدیث: 1627۔)

دو راتوں کا ذکر وقت کی حد بندی کے لیے نہیں، مراد یہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے، اُسے اپنی وصیت لکھ لینی چاہیے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُسے کب موت آجائے۔

یہ سنت عمومی حیثیت کی حامل ہے اور اپنے حکم میں سب لوگوں کو شامل کرتی ہے۔ جہاں تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق وصیت کا تعلق ہے، مثلاً: اداء زکاۃ، حج یا اداء کفارہ کے متعلق وصیت، یا اداء قرض کے متعلق وصیت، تو ایسی وصیت کا لکھ رکھنا واجب ہے، محض سنت نہیں۔

واجب اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ فرائض کی ادائیگی وابستہ ہے۔ بالخصوص اُس وقت ایسی وصیت کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ ان واجبات کے متعلق کوئی اور کچھ نہ جانتا ہو۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ واجب جس بات کے بغیر پورا نہ ہو، وہ بھی واجب ہے۔

brightness_1 نماز کا انتظار کرنا

نماز کا انتظار کرنا بھی بڑی فضیلت سے بھرپور سنت ہے۔ نماز کے انتظار میں بھی آدمی کو نماز ہی کا ثواب ملتا ہے۔

اس کی دلیل: سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز جب تک کسی کو روکے رکھے وہ نماز میں ہی ہوتا ہے، اس طرح کہ اُسے اپنے گھر جانے سے صرف نماز نے روک رکھا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 659، وصحیح مسلم، حدیث: 649)

یوں وہ نماز کا انتظار کرنے کی وجہ سے نماز کا اجر پائے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی جب تک جائے نماز پر رہتا ہے، فرشتے اُس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں (جب تک کہ وہ بے وضو نہ ہو) اے اللہ! اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ ایک شخص نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک نماز اُسے روکے رکھتی ہے۔ اور اسے اپنے گھر واپس آنے کے لیے نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 659، وصحیح مسلم، حدیث: 649۔)

صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’جب تک وہ کسی کو تکلیف نہ دے، جب تک وہ بے وضو نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 649۔ )