languageIcon
بحث
بحث
brightness_1 جس شخص کو چھینک آئے، اُس کے لیے ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ کہنا مسنون ہےـ

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ کہے۔ اُس کا بھائی یا اُس کا ساتھی اُسے ’یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘ کہے۔

جب وہ اُسے ’یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘ ’’اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘ کہے، اب چھینکنے والا اسے کہے: ’یَھْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘ ’’اللہ تم کو ہدایت دے اور تمھارے حال کی اصلاح فرمائے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6224۔)

کبھی ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ‘ کہنا بھی مسنون ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے مروی روایت میں ہے: ’’جب تم میں کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ کہے: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ‘ ’’ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، حدیث: 5033)،

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (436/2) میں اس روایت کے بارے میں لکھا ہے: (اس کی سند صحیح ہے۔)

اور چھینک کو سننے والا چھینک مارنے والے کے لیے جوابًا یہ کہے: ’یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘ اب وہ چھینک مارنے والا اس کا جواب یہ کہہ کر دے: ’یَھْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘

brightness_1 جس شخص کو چھینک آئے اور وہ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ نہ کہے تو مسنون یہ ہے کہ اُسے جواب میں دعا نہ دی جائے

 حضرت انس رضی الله عنه کی روایت ہے کہ نبی ﷺ کی موجودگی میں دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپ ﷺ نے ایک کو جواباً دعا دی اور دوسرے کو جواباً دعا نہ دی۔ اُس آدمی نے عرض کیا: آپ ﷺ نے اُسے دعا دی لیکن مجھے دعا نہیں دی۔ فرمایا: ’’اس نے اللہ کی حمد کی تھی لیکن تم نے اللہ کی حمد نہیں کی۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6225۔)

یہ تو نبوی طرز عمل تھا جبکہ ایک قولی حدیث بھی اس سلسلے میں آئی ہے۔

حضرت ابوموسیٰ رضی الله عنه کی روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو اُسے جواباً دعا دو۔ اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو اُسے جواباً دعا نہ دو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2992۔)

تاہم جہاں موقع تعلیم دینے کا ہو، تربیت کرنے کا ہو، مثلاً: والد بیٹے کو سکھا رہا ہو یا معلم طلبہ کو بتلا رہا ہو تو ایسے موقع پر وہ کہہ سکتا ہے کہ ’’الحمدللہ‘‘ کہو تاکہ بیٹے اور طالبعلم کو اس سنت پر عمل کرنے کی تربیت حاصل ہو۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس امر کے سنت ہونے سے ناواقف ہو۔

اسی طرح جس شخص کو نزلہ زُکام ہو، اُسے تیسری مرتبہ چھینک آنے کے بعد جواباً دعا نہ دی جائے۔ مطلب یہ کہ اُسے تین مرتبہ جواباً دعا دی جائے، اُس کے بعد نہیں۔

اس كى دليل : حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی موقوف و مرفوع روایت ہے: ’’اپنے بھائی کو تین مرتبہ جواب دو۔ جو (چھینک) اس سے زیادہ ہو وہ زکام ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، حدیث: 5034،

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کی بابت کہا: ’’موقوف اور مرفوع حسن ہے۔‘‘ دیکھیے: صحیح أبي داود: 308/4۔ ،)

صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھا، اُسے چھینک آئی۔ آپ ﷺ نے اُس سے کہا: یرحمک اللّٰہ۔ اُسے دوسری مرتبہ چھینک آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس آدمی کو زُکام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2993۔)

خلاصۂ کلام یہ کہ دو صورتوں میں چھینک کا جواب نہ دیا جائے: جسے چھینک آئے اور وہ الحمدللہ نہ کہے۔ جب کسی کو تین مرتبہ سے زیادہ چھینک آئے کیونکہ اس صورت میں اُسے زکام ہوگا۔